دجال سے ملاقات کا انوکھا واقعہDajjal Se Mulaqaat

دجال سے ملاقات کے

Dajal se mulaqaat


آج قارئین کرام کیلئے ایک بہترین تحریر کو پیش کرتے ہیں جس میں ایک صحابی کا دجال کیساتھ ملاقات کی واقعہ کا منظر پیش ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہیں!

آج مسجد نبوی ﷺ میں اذان معمول سے ہٹ کر ذرا پہلے ہوئی تھی۔ مدینہ کے لوگوں نے جب اذان کی آواز سنی تو سارے کام کاج چھوڑ کر سب نے مسجد کا رخ کیا کبھی کبھی نبی اکرم ﷺ ایسا کیا کرتے تھے۔ جب بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ ﷺ نے کسی خاص بات سے آگاہ کرنا ہو تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو بلاتے اور انہیں اذان کہنے کوکہتے۔


آج بھی معمول سے پہلے اس سارے معاملے کے وقوع پذیر ہونے سے ایسا لگتا تھا کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کو کوئی خاص خبر سنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی مسجد نبوی میں آمد شروع ہوئی ۔ 


اللہ کے نبی ﷺ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ مسجد نبوی ﷺ میں آنے والے صحابہ نے نبی اکرم ﷺ کے چہرے کی بشاشت دیکھی تو


سمجھ گئے کہ آج کوئی خاص بات ہے جو نبی اکرم ﷺ ہمیں بتانا چاہتے ہیں۔ ہے


پھر جب سب آکر بیٹھ گئے تو آقا مدنی ﷺ نے فرمایا:

جانتے ہو کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں جمع کیا ہے؟“

اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔


اللہ کے نبی ﷺ فرمانے لگے۔

میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمیم داری نامی ایک عیسائی نے اسلام قبول کر کے میری بیعت کی ہے اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں ۔


پھر آقا مدنی ﷺ فرمانے لگے کہ :

تمیم ( رضی اللہ عنہ ) نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں سمندر کے سفر پر نکلا مسافروں کے کل تعداد تمیں (۳۰) تھی اور ہم سب ایک کشتی پر سوار تھے۔ ہمارا سفر انتہائی اطمینان کے ساتھ کٹ رہا تھا کہ اچانک ہوا چلنا شروع ہوگئی اور سمندر میں طوفان آ گیا چنانچہ اس شدید ہوا اور طوفانی لہروں کے باعث ہماری کشتی اور سمندر میں موجود دیگر کشتیاں ڈولتی جاتیں ۔ کشتی کے مسافر اس صورتحال سے پریشان ہو گئے اور ہر کوئی اپنے اپنے خداؤں کو پکار نے لگا۔ کیونکہ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ سمندر سے اٹھنے والی لہریں ایک سمت کی بجائے ہر طرف سے کشتی کو اپنی پیٹ میں لے رہی تھیں۔ تھک ہار کر ملاح نے بھی چپو چھوڑ دیے اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب ہم میں سے ہر کسی کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ موت یقینی ہے۔ سورج غروب ہونے کو تھا اور اس کی روشنی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی تھی۔ شام کا اندھیرا اور منزل کا کوئی پتہ نہیں ۔ یہ صورت حال ہمارے لیے نہایت پریشان کن تھی اور ایس پر یہ کہ اب تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ کشتی کس سمت جا رہی ہے اور سمندر کی لہریں اب کب تک کشتی کو سلامت رہنے دیں گی۔ اس خوف و ہراس کی حالت میں رات گزرگئی اور صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے سے ہر طرف اُجالا ہی اجالا ہو گیا کشتی کے رات بھر ہچکولے کھانے کے بعد کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ پھر اگلا دن بھی اسی کیفیت میں گزرا اور اسی طرح رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آئی گئی اور ہماری کشتی کو سمندر میں پھنسے ہوئے پورے تیں (۳۰) دن گزر گئے ۔ پھر اچانک تمیں دنوں کی اس صورت حال کے بعد بھولے بھٹکے مسافروں کو دور سے ایسا نظر آیا جیسے کچھ درخت سمندر میں کھڑے ہوں ۔ چنانچہ میں دن سے موت وحیات کی کشمکش میں پھنے ہوئے مسافروں کو یہ منظر دیکھ کر اُمید کی کچھ کرن نظر آئی اور ملاح نے جلد از جلد وہاں تک پہنچنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ چپو چلانا شروع کر دیے اور کشتی کو تیزی کے ساتھ ان درختوں کی طرف لے جانے لگا۔ کشتی میں موجود مسافر جنہیں یقین ہو چکا تھا کہ اب موت کے سوا کوئی چیز نہیں ان کے چہرے زندگی کی امید کی مسرت سے چمک رہے تھے۔ پھر کشتی جوں جوں قریب ہوتی گئی درخت واضح دکھائی دینے لگے۔ ملاح پوری طاقت سے کشتی چلا رہا تھا تا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ان درختوں تک پہنچا جائے ۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اندھیرا ہو جانے کے باعث ہم اس آخری امید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ پھر کشتی آہستہ آہستہ ان درختوں کی طرف بڑھتی رہی اور جب درخت قریب ہوئے تو سارے مسافروں کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہ سمندر میں واقع کوئی جزیرہ ہے۔ ابھی سورج مکمل غروب نہیں ہوا تھا کہ کشتی جزیرے کے کنارے پہنچ گئی۔ مسافروں کو اس جزیرے پر اترے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ درختوں کے درمیان میں سے ایک عجیب و غریب قسم کا جانور جس کے پورے جسم پر بال تھے اور اس قدر لمبے اور گھنے تھے کہ یہ معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ جانور کا اگلا حصہ کون سا ہے اور پچھلا حصہ کون سا ہے۔


سارے مسافر اس عجیب و غریب جانور کو دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے ۔ کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی اس سے پہلے ایسا جانور دیکھنا تو دور کی بات سنا بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اس پر اسرار جزیرے پر اس کو دیکھ کر سب پریشانی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ کیا بلا ہے؟


ایک مسافر نے دوسرے مسافر سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟


نور نے مسافر کی یہ بات سن لی اور مسافر کے جواب سے پہلے وہ جانور خود بولا میں جاسوس ہوں!


جانور کے انسانی انداز میں گفتگو کرنے سے تمام مسافر مزید پریشان ہو گئے ۔ کیونکہ آج تک انہوں نے کسی جانور کو انسانی زبان میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ سب یہ سمجھنے لگے کہ ہو نہ ہو یہ شیطان ہے اور ہمارے سامنے آ گیا ہے۔

تمہاری جاسوسی کا مقصد کیا ہے اور تم کس کیلئے جاسوسی کرتے ہو؟ا یک مسافر نے ہمت کر کے اس سے پوچھا۔


میں جس کیلئے جاسوسی کرتا ہوں وہ تم سے ملنے کا بے حد اشتیاق رکھتا ہے وہ تم سے باتیں کرنا چاہتا ہے لہذا تم میرے ساتھ چلو ۔

چنانچہ تمام مسافر حیران و پریشان چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیے۔


وہ عجیب و غریب جانور درختوں کے درمیان بنے ہوئے راستے سے ہوتا ہوا ایک پرانے محل کے سامنے جا کر کھڑا ہوا۔ محل کو چاروں طرف سے بلند و بالا درختوں نے گھیر رکھا تھا۔ مسافروں نے وہاں پہنچ کر پریشان نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر جانور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔


جانور نے پھر حرکت کی اور سب مسافروں کو ایک بڑے دروازے سے گزرتے ہوئے محل کے اندر لے گیا۔ محل کے اندر داخل ہوتے ہی سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور رہائی کیلئے کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے اس سے پہلے اتنی بڑی قدو قامت اور بیت والا شخص کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک مسافر نے ہمت کر کے پوچھا۔تم کون ہو؟“


میں کیا ہوں اور کون ہوں؟ یہ تو تم جان ہی لوگے پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟اس نے سوال کرنے والے مسافر سے پوچھا۔


ہم عرب قبائل نخم اور جذام کے لوگ ہیں اور ساتھ ہی اس ساتھ ہی اس مسافر نے اپنے ساتھ بیتی اور یہاں تک پہنچنے کی ساری داستان سنا دی ۔


اس قید میں جکڑے ہوئے شخص نے کہا:

ذرا مجھے نخلستان بیسان کے متعلق تو بتاؤ؟ توان کے متعلق کیا جانا چاہتے ہو؟ وہ قیدی غصیلے انداز میں بولا بولا ۔


خبر دار العنقریب ان پر پھل لگنا بند ہو جائے گا۔ ۔

پھر وہ مسافروں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:

اچھا طبرستان کے دریاؤں کے متعلق تو بتاؤ؟


مسافروں نے کہ وں نے کہاکہ دریا کے تعلق کیا پوچھنا چاہتے ہو؟

وہ بولا ” اس میں پانی ہے؟“


مسافروں نے کہا ہاں اس میں پانی ہے ۔“


اس نے کہا عنقریب اس کا پانی ختم ہو جائے گا


پھر وہ کہنے لگا۔ مجھے زغر کے چشمے کے متعلق تو کچھ بتاؤ


کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“

یہی کہ چشمے میں پانی ہے کہ نہیں اور اگر وہاں پانی ہے تو پھر وہاں کے لوگ چشمے کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔


پھر وہ پوچھنے لگا۔

اچھا مجھے ذرا امیوں کے نبی ( محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق تو آگاہ کرو؟“


مسافروں نے جواب دیا:

انہوں نے مکہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور اب وہ مکہ سے نکل کر مدینہ میں موجودہے۔


کیا وہ عرب کے لوگوں کے ساتھ کوئی لڑائی لڑے؟ اس نے پوچھا: عربوں نے لڑائی میں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟“


جواب ملا لڑائی میں وہ عربوں پر غالب رہے اور بہت سے عربوں نے تو ان کی اطاعت بھی قبول کر لی ہے اور اب وہ خود کو ان کی تابعداری میں رکھتے ہیں۔


یہ سنتے ہی وہ غصے سے پھنکارا اور زنجیروں کو جھٹکا دیا۔ پھر مسافروں کو مخاطب کر کے ہے بولا اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں میں دجال ہوں اور تمہاری باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ مجھے یہاں سے نکلنے کی اجازت ملے گی۔ پھر میں اس جزیرے سے نکلوں گا اور چالیس دنوں میں ساری دنیا گھوموں گا۔ دنیا میں کوئی بستی اور گاؤں ایسا نہیں ہوگا جہاں سے میرا گزر 7 نہ ہو ہاں مکہ اور مدینہ میں جانا میرے بس سے باہر ہے۔ مجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں۔


میں ان دونوں شہروں میں داخل ہونے کی کوشش بھی کروں گا تو میرے آگے فرشتے رکاوٹ کے بن جائیں گے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں ہوں گی اور وہ مجھ سے لڑیں گے۔


پھر آپ ﷺ نے انتہائی توجہ کے ساتھ واقعہ سننے میں مشغول صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے سامنے مشرق کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کہو (رجال) مشرق کی جانب ہے۔ ما خود از مسلم شریف)


Post a Comment

1 Comments